Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”تم نے کہا تھا دنیا کی کوئی طاقت تمہاری راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی  تم ہر حال میں مجھ سے ملنے آؤ گی  پھر اب کیا ہوا؟ تم میرے بنا آرام سے رہ رہی ہو۔“

راحیل سیل پر عائزہ سے گفتگو کر رہا تھا۔

”تم نے بھی کہا تھا اس دنیا کے رحم و کرم پر تم مجھ کو نہیں چھوڑو گے  کہاں گئے تمہارے وعدے؟ اگر تم کو مجھ سے اتنی ہی محبت ہے  تو یہاں آکر لے جاؤ مجھے۔
میں تیار ہوں تمہارے ساتھ جانے کو۔“ وہ بھی بن جل مچھلی کی طرح تڑپ کر رو رہی تھی۔

”میں نے تو بہت ٹرائی کی ہے تمہیں ساتھ لے جانے کی مگر تمہارا وہ کزن ہر بار آکر میرا راستہ خراب کر دیتا ہے۔“ اس کی آواز میں نفرت کی پھنکاریں تھیں۔

”وہ ہمارے راستے کی رکاوٹ ہے تم اس کو راستے سے ہٹا سکتے ہو؟“

”اگر تم کہو تو…“ وہ معنی خیز لہجے میں بولا۔
(جاری ہے)

”پہلی فرصت میں یہ کام کرو  وہ راستے سے ہٹ جائے گا تو خود بخود ہمارا راستہ کلیئر ہو جائے گا۔“

###

کھانے کی ٹیبل پر صباحت موجود نہیں تھیں  گزشتہ دو دنوں سے وہ ٹیبل پر نہیں آ رہی تھیں۔ فیاض صاحب نے سختی سے انکار کر دیا تھا وہ ابھی منگنی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

ہمیشہ کی طرح انہوں نے اس انکار کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر کمرے میں خود کو بند کر لیا تھا۔
گھر کے باقی افراد ان کی اس عادت سے واقف تھے۔ مذنہ اور طغرل کی غیر موجودگی میں ان کو منانے کی سعی کی گئی تھی اور وہ نہیں مانی تھیں۔

کھانے کے بعد تنہائی میں انہوں نے فیاض کو کمرے میں بلایا تھا۔

”جی اماں جی! آپ نے یاد کیا مجھے؟“ وہ ان کے قدموں کے پاس بیٹھتے ہوئے استفسار کرنے لگے۔

”ہاں بیٹا! میں پہلے تم سے معاملہ معلوم کرنا چاہتی ہوں پھر صباحت سے بات کروں گی۔
تم دونوں کے درمیان ہوا کیا ہے؟“

”وہی پرانی بات ہے اماں! وہ ہر بات پر ضد کرکے بیٹھ جاتی ہے  اس نے کبھی میری پریشانی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی  اس کو صرف اپنی نمود و نمائش کی فکر رہتی ہے۔“ ان کے انداز میں بے حد ملال اور اداسی تھی۔

”اس کو میرے کمزور بزنس کی خبر ہے  میری پریشانیوں کو وہ جانتی ہے اس کے باوجود وہ اپنی خواہشوں کو نہیں روکتی۔

”تم فکر مت کرو  میں سمجھاؤں گی اس کو بیوی مرد کی دکھ سکھ کی ساتھی ہے  خاوند کے مال کی بیوی نگران ہے اس کا فرض ہے مال کی حفاظت کرنا اور خاوند کی خدمت کرنا۔“

”اماں جان! وہ میرے بچوں کی ماں تو بن گئی ہے مگر مجھے وہ دل سے اپنا نہیں سکی  ہمارے درمیان آج تک ایک خلیج رہی ہے۔“

کاروبار کی دگرگوں حالت اور بے تحاشہ لیا گیا قرض ان کو پہلے ہی فکر و انتشار میں مبتلا کر چکا تھا اور اس پر مستزاد صباحت کا تعاون نہ کرنا اور بڑھ چڑھ کر شاہ خرچیوں نے ان کو اس حد تک مضطرب کر دیا تھا کہ وہ اپنے دکھ اماں جان سے کہہ بیٹھے تھے۔

”بیٹا…“ انہوں نے ان کی جانب دیکھتے ہوئے صاف گوئی سے پوچھا۔

”صباحت کو تم کہہ رہے ہو اس نے تم کو دل سے نہیں اپنایا ہے مگر… تم پوری سچائی سے بتاؤ  تم نے اس کو دل سے اپنایا ہے؟ اس سے وہ محبت کی ہے جو مثنیٰ سے کی تھی؟ اس کو دل میں وہ جگہ دی ہے جو مثنیٰ کو دی تھی؟“

ان کے چہرے دھواں سا پھیل گیا تھا اور وہ مضطرب ہو گئے تھے۔

”اماں جان! یہاں مثنیٰ کا ذکر کیوں کر رہی ہیں آپ؟“

”اس لئے میرے بچے  وہ برسوں پہلے اس گھر سے جانے کے باوجود بھی تمہارے اور صباحت کے درمیان موجود ہے۔“ ان کی جانب دیکھ کر جتانے والے انداز میں بولیں۔

”تم آج بھی اس کو نہیں بھلا سکے ہو اور ایک عورت دوسری عورت کے وجود کو فوراً محسوس کر لیتی ہے  جس طرح صباحت نے محسوس کیا ہے  تم اپنے تعلق کو ایمانداری سے نبھاؤ گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

”میں اپنے تعلق کو ایمانداری سے ہی نبھا رہا ہوں اماں جان مگر وہ خود مثنیٰ کے سحر سے نہیں نکلتی ہے اس میں میرا قصور نہیں ہے۔ وہ عائزہ کی منگنی پھر دھوم دھام سے کرنا چاہتی ہے اور میں ابھی افورڈ نہیں کر سکتا  اس بات کو لے کر وہ ہنگامہ کئے بیٹھی ہے۔“

”تم فکر مت کرو  میں سمجھاتی ہوں اسے۔“

###

”بھابی جان! آپ نہیں جانتی فیاض کے مزاج کو۔
“ مذنہ نے ان دونوں کے درمیان بڑھتے کھنچاؤ کو محسوس کرکے صباحت سے حقیقت معلوم کرنی چاہی تو وہ دل کی بھڑاس نکالنے لگی تھیں۔

”میں جانتی ہوں فیاض کے مزاج کو وہ بہت ٹھنڈے مزاج کا حساس دل رکھنے والا شخص ہے۔“

”ٹھنڈا مزاج… ہونہہ…! میرے سامنے تو وہ ہمیشہ ہی آگ اگلتے ہیں ان کے منہ سے لفظ نہیں انگارے نکلتے ہیں۔“

”نہیں صباحت! ایسا نہیں ہے۔
“ انہوں نے مسکرا کر کہا۔

”قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے بھابی جان!“ وہ منہ بنا کر گویا ہوئیں۔

”بے شک  تم ان باتوں کو دل سے نہیں لگاؤ  میاں بیوی میں ایسے جھگڑے چھوٹی موٹی باتوں پر ہوتے رہتے ہیں۔“

”میاں اور بیوی…!“ وہ منہ بنا کر گویا ہوئیں۔

”وہ آج تک اس کمینی مثنیٰ کو کہاں بھولے ہیں بھابی! اس گھر سے وہ چلی گئی ہے مگر ان کے دل میں موجود ہے۔
“ جاہل عورتوں کی طرح وہ ہاتھ لہرا کر گویا ہوئی تھیں۔

”یہ تم کس طرح کہہ سکتی ہو؟“

”میں نام کیلئے ہی سہی مگر ان کی بیوی ہوں اور مجھے معلوم ہے وہ آج بھی اس کے خیالوں میں گم رہتے ہیں۔“

”صباحت! بچیاں بڑی ہو گئی ہیں اور جب بچیاں بڑی ہو جائیں تو ماں کو بہت احتیاط اور صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے  اب اس مقام پر جب تم بچیوں کے رشتے کر رہی ہو تو ایسی باتیں ذرا بھی بہتر نہیں ہیں۔
ان سے ان کے مستقبل پر اثر پڑے گا۔“

”ارے بھئی واہ! ساری ذمہ داری صرف ماں کی ہوتی ہے؟ باپ کو کوئی خیال نہیں کرنا پڑتا ہے؟“ وہ ایک محدود سوچ کی مالک تھیں۔

”باپ کیا ذمے داریاں کم اٹھاتے ہیں تم اچھی طرح جانتی ہو۔“

”آپ کو تو فراز بھائی نے پلکوں پر رکھا ہوا ہے  آپ کیا جانیں گی میرا دکھ کہ میرا شوہر آج تک اس عورت کے عشق میں مبتلا ہے  جو اس کو چھوڑ کر جا چکی ہے۔

”چلو میں تمہاری بات مان لیتی ہوں لیکن اس میں سارا قصور تمہارا ہے  دیکھو ایک عورت ہی دوسری عورت کا خیال نکال سکتی ہے مرد کے دل سے اور تم تو فیاض پر شک کرکے طعنے دے دے کر اس کو بدظن کر چکی ہو خود سے۔“

”یہ کیا کہہ رہی ہیں بھابی آپ!“ وہ حیران ہوئیں۔

”میں ٹھیک کہہ رہی ہوں  ایک ایسے شخص کے آگے تم بار بار اس عورت کا نام لو گی جس سے وہ محبت کرتا ہو وہ اس کو کس طرح بھولے گا۔

”وہ اس کو طلاق بھی تو دے چکے ہیں۔“

”یہ میں جانتی ہوں۔“ چند لمحے توقف کے بعد وہ بولیں۔ ”فیاض نے مثنیٰ کو ڈائیورس گھر والوں کے پریشرائز کرنے پر دی تھی  اس کی خواہش نہ تھی۔“

”تو وہ کون سا طلاق کو دل کا روگ لگا کر بیٹھی گئی تھی  اس نے بھی تو فوراً ہی شادی کر لی۔“

”بات ساری یہ ہے کہ جب دو محبت کرنے والے نفرت کرتے ہیں تو پھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے جنون میں جتنا ان کو گرنا ہوتا ہے وہ گر جاتے ہیں۔

”پھر فیاض کو تو اس کو خواب میں بھی نہیں دیکھنا چاہئے تھا  وہ اس سے نفرت کرنے کے بجائے ابھی تک…“

”پلیز صباحت! بار بار یہ بات مت کرو  یہ وہ راستے ہیں جن پر پلٹ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔“

”بھابی! میں کیا کروں؟“ وہ ان کے شانے سے لگ گئی تھیں۔ ”میں فیاض سے بہت محبت کرتی ہوں۔“

”مجھے معلوم ہے تب ہی تو تم یہاں ہو  عورت اپنے مرد سے محبت کرتی ہے تب ہی تو اس کا گھر اور بچے سنبھالتی ہے۔
مگر صرف محبت کرنا کافی نہیں ہوتا ہے  سمجھنا بھی پڑتا ہے  تم نے فیاض سے محبت کی ہے بلکہ کرتی ہو  اب اس کو سمجھو بھی  اس کے مزاج و عادت کو جانو اور اس کے مزاج میں خود کو ڈھال لو جب ہی محبت کامیاب ہوتی ہے۔“

###

”تمہارے امتحان ہونے والے ہیں اور تم کتابیں لے کر تو کبھی یاد کرنے بیٹھی نہیں ہو۔“

وہ بیٹھی مووی میگزین پڑھ رہی تھی جب گلفام وہاں آ کر بولا اور اس نے نگاہیں جھکائے ہوئے جواب دیا۔

”میں تمہاری طرح“ رٹو طوطا“ نہیں ہوں  آؤٹ اسٹینڈنگ اسٹوڈنٹ ہوں اپنے کالج کی  ایک نظر کتاب دیکھتی ہوں اور سب یاد ہو جاتا ہے۔“ اس نے فخریہ انداز میں کہا۔

”یہ بات تو ہے اللہ نے تمہیں خوبصورتی اور ذہانت بڑی دی ہے۔“ وہ محبت سے بولا تھا۔

”اور تمہیں سیاہی دل کھول کر دی ہے  سیاہ فام!“ وہ اسے دیکھ کر کھلکھلائی تھی۔

”اگر سیاہی نہ ہوتی تو ”روشنی“ کو کون اہمیت دیتا؟ تمہاری اور میری جوڑی سیاہ رات اور اجلے دن جیسی ہو گی۔“

تمہاری اور میری جوڑی… ہونہہ! اس حسرت میں مر جاؤ گے تم  میں تمہاری نہیں ہونے والی۔

”کیا سوچ رہی ہو؟“ وہ اس کو خاموش دیکھ کر بولا۔

”کچھ نہیں۔“

”تمہارے امتحان ختم ہوتے ہی امی اور ابو تم کو بہو بنا کر لے جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔

دنیا بھر کی خوشیاں اس کے سانولے چہرے پر جگمگا رہی تھیں۔

”اچھا  کہاں لے کر جاؤ گے مجھے دلہن بنا کر۔“ ایک لمحے کو تو وہ اس کی بے باکی پر چپ رہ گیا تھا  پھر خود پر قابو پاکر مسکرا کر گویا ہوا۔

”ابو ہمارے لئے ایک شاندار کمرہ بنانے کا کہہ رہے تھے  اس ہفتے میں ہی کام شروع ہو جائے گا اور ہماری شادی تک سب تیاری ہو جائے گی۔

”کمرہ…!“ اس کی نگاہ میں قطار در قطار وسیع و عریض وہ تمام بنگلے گھوم گئے تھے اور ساتھ ہی تعمیر ہونے والا وہ کمرہ  جو اس کا موڈ ہی نہیں چہرے کے زاویئے بھی بگاڑ گیا تھا۔

”کیا ہوا تم ایک دم  خاموش کیوں ہو گئی؟“ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور وہاں سے چلی گئی۔

###

مذنہ سے ملنے آصفہ اور عامرہ آئی تھیں وہ سب لاؤنج میں بیٹھی گفتگو میں مصروف تھیں  پری ملازمہ کے ہمراہ ان سب کو کولڈ ڈرنگ سرو کر رہی تھی۔

صباحت کا دل نامعلوم فیاض کی طرف سے صاف ہوا تھا یا نہیں لیکن مذنہ کے سمجھانے کے بعد وہ اپنی ناراضگی بھول کر ان لوگوں میں بیٹھی خوشگوار موڈ کے ساتھ گفتگو کر رہی تھی  پری کولڈ ڈرنکس لے کر معید اور طغرل کو سرو کرنے آئی وہ ٹیرس پر بیٹھے ہوئے تھے۔

”ڈیئر کزن! تم عید کا چاند ہو گئی ہو۔“

”آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے معید بھائی!“ اس نے دونوں کو کولڈ ڈرنکس سرو کرنے کے بعد کہا۔

”ہم تو محرم کا چاند ہیں سسٹر!ٴ“

”تم تو بھابی کے چاند ہو گے  محرم کے چاند کیوں ہونے لگے۔“

”بیٹھونا کہاں جا رہی ہو۔“ وہ اس کو جاتے دیکھ کر گویا ہوا۔

”مجھے ابھی کچن دیکھنا ہے  اچھا یہ بتائیں کیا کھائیں گے؟“

”جو تم اپنے ہاتھوں سے بہترین ڈش بناتی ہو وہ ہی کھلا دو۔“

”کریلے قیمہ ان کے ہاتھ سے بہت بہترین بنتا ہے۔
“ وہ اس کی طرف دیکھ کر شوخ لہجے میں بولا۔

”کریلے قیمہ…“ وہ متعجب ہوا۔

”دادی جان بے حد تعریف کرتی ہیں۔“

”سب کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے طغرل بھائی!“

”ہاں درست کہہ رہی ہو پری! ایسا کرو کچن چاؤ من بنا لو۔“

”ٹھیک ہے۔“ وہ جاتے ہوئے بولی۔

”مجھ سے کیا دشمنی ہے؟ مجھ سے نہیں پوچھو گی؟“ وہ مسکراہٹ دبا کر گویا ہوا۔

”آپ مہمان نہیں ہیں۔“

”صرف مہمانوں سے ہی پوچھا جاتا ہے؟“

”آپ کی پسند چائینز بریانی اور دم کے کباب پہلے ہی دادی تیار کرنے کا حکم دے چکی ہیں۔“ وہ کہہ کر جا چکی تھی اور وہ ہنس پڑا تھا۔

”ہر وقت اس لڑکی کی ناک پر غصہ رہتا ہے۔“

”یار! تم زچ بھی تو بہت کرتے ہو اس کو اور تم جیسے لوگ جب تک منہ کی کھا نہ لیں خاموش بھی نہیں ہوتے۔

”جو لوگ بلاوجہ چڑتے ہیں ان کو چڑانے میں مزہ آتا ہے۔“

”میں تو تم سے کچھ اور ہی توقع کرکے بیٹھا تھا۔“ وہ بہت دھیمے لہجے میں بولا تھا۔

”تم تو سیریس ہو گئے ہو  کیا بات ہے؟“ وہ چونک کر متوجہ ہوا تھا۔

”کچھ نہی  چلو نیچے چلتے ہیں۔“ وہ کولڈ ڈرنک پی کر اٹھتا ہوا بولا۔

”کیا بات ہے یار! تم کہتے ہوئے کیوں رک گئے؟“

”کہوں گا  ابھی نہیں وقت آنے پر۔

”سمجھو ابھی وہ وقت آ گیا۔“ وہ اس کے قریب چلا آیا تھا۔

”نہیں میں نے کہا نا ابھی ہم اس ٹاپک پر بات نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔“ وہ سنجیدہ تھا۔

”تمہیں میری دوستی پر اعتبار نہیں ہے؟ کیا تم مجھے اس قابل نہیں سمجھتے کہ کوئی بات شیئر کرو مجھ سے؟“ وہ اس سے زیادہ سنجیدہ ہو گیا تھا۔

”تم پر یقین ہے اور تمہاری دوستی پر تب ہی تو…؟“

”پھر کہہ دو نا جو کہنا ہے۔

”میں چاہتا ہوں… تم پری کو اپنا جیون ساتھی بنا لو۔“ اس نے گویا ایک دم دھماکہ کیا تھا۔

”وہاٹ!“ لمحے بھر کو وہ سمجھ ہی نہ سکا تھا۔

”ہاں میری یہ خواہش ہے  فیملی میں کوئی بھی اس کو اپنانے کو تیار نہیں ہے  ہماری ماؤں کی ناپسندیدگی کی وجہ سے اگر کوئی زبردستی کرتا بھی ہے تو پری کو کوئی مقام کبھی بھی نہ مل سکے گا۔“

”یہ کیا کہہ رہے ہو تم۔
“ وہ شاکڈ تھا اس کی بات پر ایسا کب سوچا تھا اس نے اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا وہ ایسا کہے گا۔

”سوچ لو تمہارے پاس ٹائم ہے ابھی۔“

”میرے کیریئر کا آغاز ہوا ہے  پوری فیوچر پلاننگ میرے سامنے ہے یار!“

”تو کیا ہوا؟ میں نے کہا نا تم سوچو ابھی صرف۔“

”میں نے کبھی اسے اس نظر سے نہیں دیکھا میں نے کسی بھی لڑکی کو آئیڈیلائز نہیں کیا ہے  ابھی میرے سامنے صرف میرا فیوچر ہے۔
“ وہ تذبذب کا شکار تھا۔

”یہی تو کہہ رہا ہوں میری جان! تم سوچ لو کسی کو مت بتانا آنٹی انکل اور نانی جان کے علاوہ۔“

”میں کوئی پرامس نہیں کرتا۔“

”پھر ٹھیک ہے کوئی زبردستی نہیں ہے۔“ اس کے دو ٹوک انداز نے واضح کر دیا تھا وہ پری سے یہ تعلق قائم کرنا نہیں چاہتا  معید نے پھر کچھ نہیں کہا وہ دونوں خاموشی سے وہاں سے چلے گئے اور پری جو معید کو بلانے آئی تھی۔
اپنے ذکر پر خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہی تھی  وہ پلر کے دوسری طرف چلی گئی تھی۔

اس کا چہرہ دھواں دھواں تھا۔

وہ کب چاہتی تھی اس شخص کی ہو جائے جس نے اس کو قدم قدم پر تنگ کیا تھا۔

اگر کوئی اس سے بھی طغرل کیلئے پوچھتا وہ فوری انکار کر دیتی مگر اس وقت طغرل سے انکار سن کر وہ کم مائیگی کا شکار ہو گئی تھی۔

اپنی ذات بے حد ارزاں لگ رہی تھی اسے۔

ٹھکرانا اور ٹھکرا دیا جانا ان احساسات میں بہت فرق تھا۔ پہل جس کے حصے میں آتی ہے وہ سرخرو ہو جاتا ہے۔ جیت جاتا ہے اور شکست کھانے والا  جو خود بھی اس کو شکست دینے کی تمنا رکھتا ہو اگر شکست کھائے تو ٹوٹ جاتا ہے  بکھر جاتا ہے۔ اس کا دل ہر شے سے اچاٹ ہو گیا تھا۔

وہ کمرے میں آکر بھاگ کر واش روم کی طرف بڑھی اور پھر بے ساختہ پانی کے ساتھ اس نے بھی آنسو پہائے تھے  نامعلوم کتنی دیر تک وہ روتی رہی تھی۔

باہر سے دروازہ دھڑ دھڑائے جانے پر وہ حواسوں میں لوٹی تھی اور ٹاول سے منہ صاف کرتی باہر آئی تھی۔

”تمہیں کیا ہوا؟ کب سے ڈھونڈ رہی ہوں تمہیں اور تم یہاں گھسی بیٹھی ہو۔“ دادی نے اسے دیکھتے ہی کہا۔

”آپ تو اس طرح ڈھونڈنے لگتی ہیں جیسے میں گم ہو جاؤں گی۔“ وہ تولیہ باہر گیلری میں اسٹینڈ پر ڈال کر آتے ہوئے بولی۔

”پہلے یہ بتاؤ  کیوں روئی ہو؟“

”میں کیوں روؤں گی دادی؟“

”یہ چہرہ کیسا سرخ ہو رہا ہے تمہارا؟“

”ایسے ہی  سر میں درد ہو رہا ہے۔
“ وہ نگاہیں چراتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔

”کیوں ہو گیا سر میں درد؟ ابھی ٹھیک ٹھاک تھیں۔“ وہ ایک دم سے فکر مند ہو گئی تھیں۔

”بس ایسے ہی ہو گیا  درد بھی کبھی بتا کر ہوتا ہے؟“

”کھانا بھی نہیں کھایا تم نے  سب چلے گئے مذنہ بھی سونے چلی گئیں اور تمہارا کوئی پتا ہی نہ تھا۔“

”کھانا میں نے لگوا دیا تھا دادی جان!“

”تو پھر کھایا نہیں؟ کیا زیادہ سر میں درد ہو رہا ہے؟ طغرل سے کہتی ہوں ڈاکٹر کے پاس لے چلے گا۔
“ اس کو گم سم دیکھ کر ان کی ممتا پھڑ پھڑائی تھی۔

”میں نے گولی کھا لی ہے ٹھیک ہو جائے گا ابھی کچھ دیر میں۔“

”اچھا! آج کام بھی تو بہت کرنا پڑا ہے تمہیں  تھک گئی ہو  چلو سو جاؤ۔ میں نماز ادا کر آؤں عشاء کی۔“ بڑی شفقت سے وہ کچھ دیر اس کا سر دباتی رہیں وہ آنکھیں بند کرکے لیٹ گئی۔

”تم دونوں کا ایک ہی مزاج ہو گیا ہے نہ طغرل نے کھانا کھایا ہے نہ تم نے عجیب لوگ ہو تم دونوں۔“

   3
0 Comments